Quaid e Azam Solar Park- Part II

7:52 AM

جب میں نے خالد مسود خان کے کالم کے جواب میں اپنا نقطہ نظر پیش کیا تو مجھے اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ اس میں کافی سارے سوال تشنہ طلب رہ جائیں گے ..  بہر کیف کافی سارے سوالوں کے بیچوں بیچ یہ  بھی  رہاکہ میری زبان سخت تھی ..  حسن نثار اور ہارون رشید کے پڑھنے والوں کو میری زبان سخت  لگی تو کوئی حیرت ہوئی . بہر حال جو کچھ تشنگی رہ گئی اس کالم میں پوری کرنے کی کوشش کروں گا ..

دنیا میں جتنے بھی پاور پلانٹ ہیں وہ سب اپنی انتہائی طاقت کے سبب پہچانے جاتے ہیں مثال کے طور پر پاکستان کے تربیلا ڈیم کو لے لیں . اس ڈیم کی انتہائی استعداد تقریبآ ساڑھے تین ہزار میگا واٹ ہے  مگر یہ ضروری نہیں کہ یہ ہر وقت ہی ساڑھے تین ہزار میگا واٹ بجلی  دے  .. موسم سرما میں جب کہ دریاؤں میں پانی کم ہو جاتا ہے تو اسی ڈیم کی پیداوار کم ہو جاتی ہے  مگر ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ کسی پاور پلانٹ کی انتہائی پیداوار کو کسی نے دھوکے سے موسوم کیا ہو .. یہ اعزاز بھی خیرسے خالد مسعود صاحب کے حصے آیا جن کے خیال میں حکومت نے قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکی ہے .. اسی ضمن میں حضرت یہ بھی فرماتے ہیں کہ صبح سات سے بجے دوپہر بارہ بجے تک صرف اسی سے چوراسی میگا واٹ بجلی پیدا ہوتی ہے  اور یہ کہ پورے دن میں صرف دو گھنٹے یعنی بارہ سے دو بجے تک پلانٹ تقریبآ اسی میگا واٹ دے گا .. گویا موصوف کے نزدیک پلانٹ سو کا نہیں دراصل اسی میگا واٹ کا ہے .. اب ذرا اس مقام پر ٹھہرتے ہیں کہ کیا واقعی ایسا ہے .. 
اصل میں ہوتا یہ ہے کہ کسی بھی پینل کی اوٹ پٹ ایک خاص شمسی روشنی کی مقدار اور پچیس ڈگری سینٹی گریڈ کے حساب سے لکھی ہوتی ہے .. شمسی روشنی کی مقدار کو کلو واٹ فی  مربع میٹر میں ناپا جاتا ہے اور کسی بھی جگہ پہنچنے والی شمسی توانائی کوکلو واٹ آور فی مربع میٹر فی دن کے  حساب سے ماپا جاتا ہے . پس اگر کسی جگہ کی اوسط شمسی توانائی چار کلو واٹ  گھنٹہ فی مربع میٹر فی دن  ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس جگہ لگے پینل دن میں چار گھنٹے انتہائی استعداد پر کام کریں گے . اب اگر ہم پاکستان کے شمسی روشنی کے نقشے دیکھیں تو ایک بات تو واضح ہے کہ چولستان میں سردیوں میں ساڑھے چار سے پانچ ، بہار میں چھے سے ساڑھے چھے  گرمیوں میں بھی چھے کے لگ بھگ  ایسے گھنٹے آتے ہیں جب شمسی روشنی  پینلز کو پوری مقدار میں ملے گی . اب فرض کرتے ہیں کہ قائد اعظم سولر پارک صوبہ چھے سے شام چھے تک بارہ گھنٹے کام کرتا ہے جس میں تقریبآ پانچ گھنٹے ایسے آتے ہیں جب پلانٹ پوری استطاعت پر کام کر رہا ہو گا تو یہ کس ریاضی دان کے مطابق اوسط اسی میگاواٹ دے سکتا ہے .. یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ موصوف نہیں جانتے کہ انورٹر کس قسم کا استعمال ہوا ہے مگر یکمشت بیس فیصدی انرجی سسٹم سے نکال باہر کر دی .. اس چیز کی وضاحت میں اپنے پچھلے بلاگ میں کر چکا ہوں کہ آج آج کل کے جدید دور میں ایسے اچھے  انورٹرموجود ہیں جن  کی افیشنسی نوے فیصد کے لگ بھگ ہوتی ہے باقی اگر نیچا دکھانا ہی مقصود ہو تو ملتان کی سپیکروں والی گلی سے بنا انورٹر چالیس فیصد کرنٹ کھانے کی صلاحیت رکھتا ہے . اب یہ خدا جانے کہ خالد صاحب کو اسی کا مشورہ کس نے دیا .. بہر کیف پورے دن کا پیداواری نقشہ ایک نصف دائرے کی شکل سے ملتا جلتا ہوتا ہے جس کی اوسط تقریباًچالیس سے پچاس میگا واٹ بنتی ہے  اور اگر اسے چوبیس گھنٹے کے حساب سے نکالیں تو یہ بنتا ہے بیس سے پچیس میگاواٹ . گو کہ فی میگا واٹ قیمت زیادہ ہے  مگر اس کی وجہ سب کچھ درآمد ہونا ہے ..موصوف نے اپنے کالم میں ہندوستان کے جس پلانٹ کے ساتھ موازنہ کیا ہے اس کے سستا ہونے کی واحد وجہ وہاں کے دیسی ساختہ پینلز ہیں .. اگرچہ اس چیز پر کہ ایک شمسی توانائی منصوبے کی چوببس گھنٹے پر تقسیم کہیں سے تکینکی طور پر  مناسب نہیں اور یہ کہ سیب اور مالٹے کا مقابلہ بھی کوئی دانش مندی نہیں میں سر دست موصوف کو صرف اس بات پر جواب دینا چاہتا ہوں کہ اگر پیسے ہی خرچنے تھے تو شمسی منصوبے پر ہی کیوں ..

پہلی بات تو یہ کہ شمسی توانائی جیسے منصوبے پیک پاور کو پورا کرنے کو بنتے ہیں .دن میں جب کے دفاتر، سکول اور بازار آباد ہوتے ہیں اس وقت یہ انتہائی پیداوار دیتا ہے جس سے لوڈ پروفائل کی چوٹی کو پہنچنا آسان ہو جاتا ہے  . یہ بہت جلدی لگ جاتے ہیں ان کے لئے کوئی خاص انفراسٹرکچر نہیں چاہیے ہوتا .. ان کی ابدتدائی لاگت ہوتی ہے مگر رننگ لاگت نا ہونے کے برابر ہوتی ہے ..شمسی توانائی پر کسی کی اجاہ داری نہیں .. گزرتے دور کے ساتھ ساتھ انکی ایفشنسی بہتر سے بہتر ہوتی جا رہی ہے یہی وجہ ہے کہ اس وقت دنیا میں کل ملا کر ایک سو گیگا واٹ سے زیادہ  کے سولر پینل لگ چکے ہیں . کیوں کہ ماسواۓ پاکستان کے کہیں بھی کوئی انکی پیداوار کو چوبیس گھنٹے پر تقسیم کر کے اوسط کا حساب نہیں لگاتا ..دنیا اب صاف ستھری انرجی چاہتی ہے جو ماحول دوست ہو .. پھر ان کی دیکھ بھال کا کوئی خرچ نہیں ..رہ گئی بات فی یونٹ قیمت کی تو نیپرا نے اس پلانٹ کو چودہ سینٹ فی یونٹ کا ٹیرف دیا ہے خدا جانے کہ خالد مسعود کو بائیس سینٹ فی یونٹ کا الہام کس بنا پر ہوا..اس پر مزید یہ کہ اس پاور پلانٹ کو ایک سو تریپپن گیگا واٹ گھنٹہ پہلے سال میں گرڈ میں شامل کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے جو کہ موجودہ سو میگاواٹ بآسانی پورا کر لے گا . باقی اس چیز کے مصداق کے جناب معاملہ پھرتیوں کا تھا تو جناب قوم جلدی ہی چاہتی ہے پہلے بھی پچھلے کئی سالوں سے کوئی منصوبہ نہیں لگا .. اٹھارویں ترمیم کے بعد پنجاب اپنے شارٹ فال کو خود پورا کر رہا ہے .. خالد مسعود کی یہ بات کہ کوئلے پر کام نہیں بھی سراسر غلط ہے نہ صرف کوئلہ بلکہ چھوٹے چھوٹے پن بجلی کے منصوبے اور ہوا اور گوبر سے بجلی کی پیداوار پر بھی کام ہو رہا ہے .، تعصب کی عینک لگا کر آپ اپنے مخالفین کو اپنے نام نہاد کٹہرے میں کھڑا کرنے سے پہلے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں دیانت کو مسلم کریں ..پیراں غائب کے پاور ہاؤس پر میں نے موصوف سے اتفاق کیا تھا اگرچہ موصوف نے پیسوں کے ہیر پھیر میں یہ نہیں بتایا کہ نیا پاور پلانٹ لگنے میں کتنے سال لگیں گی اور ان سالوں میں قوم کا شارٹ فل مزید کتنا بڑھ جاۓ گا. نہ ہی موصوف نے یہ بتانا گوارا کیا کہ جس پنجاب میں سردیوں میں گیس کی لوڈ شیڈنگ پورے ملک سے زیادہ ہوتی ہے وہاں اس پاور پلانٹ کے لئے گیس  آے گی کہاں سے.. گیس ہوتی تو حکومت ایل این جی کے لئے جان مارتی ؟؟ 

باقی رہی ایک دوست کی بات کہ سولر فوٹو وولٹ کی کیوں سولر تھرمل کیوں نہیں تو ان کے لئے عرض ہے کہ سولر تھرمل میں پانی بھی چاہیے جو کہ صحرا میں لانا مشکل ہے پھر وہ سستا نہیں .. اس میں موجود پانی کے پائپ مسلسل دیکھ بھال کے متقاضی ہیں پھر تھرمل ٹربائن کے لاسز زیادہ ہوتے ہیں اسی وجہ سے دنیا میں کئی بڑے  منصوبے سولر تھرمل سے سولر فوٹو وولٹ میں منتقل ہوئے . صرف امریکہ میں لگ بھگ ساڑھے اٹھارہ سو میگاواٹ کے منصوبے منتقل ہوے .. .پھر یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ فوٹو وولٹ کی پیداواری قیمت میں مسلسل کمی ہو رہی ہے . اگلے کچھ سالوں میں اگر پاکستان میں سولر پینل بنانے کا کارخانہ لگ جاتا ہے تو اس کی قیمت مزید کم ہو جاۓ گی ..

باقی جاتے جاتے اتنا عرض کر دوں کہ جنوبی پنجاب کی محرومی کا منجن بیچنا بند کر دیں .. جنوبی پنجاب میں پچھلے پانچ سالوں میں کئی میڈیکل کالج ، انجینیرنگ یونیورسٹیز  ہسپتال بنواۓ . میں نون لیگی ترجمان نہیں ایک ذمہ دار شہری ہوں ..ملتان کا ڈومیسائل رکھتا ہوں اچھی طرح جانتا ہوں کہ مخدوموں اور گیلانیوں کے دور میں ملتان کو کیا ملا . آپ جیسوں کو یہ بھی بھول گیا کہ موجودہ گورنر پنجاب بھی جنوبی پنجاب سے ہے . باقی آپ کی سیر کے لئے میں بھرپور آواز اٹھاؤں  گا کہ آپ کو بھی کسی منصوبے کے افتتاح پر ہیلی کاپٹر کی سیر کروائی جاۓ تا  کہ آپ کے ذہن میں پلتی احساس محرومی کا ازالہ کیا جا سکے 

نوٹ : کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے . اس نقشے کو امریکی ادارے نے بنایا اور یہاں صرف اپنا نقطہ نظر ثابت کرنے کے
لئے استعمال کیا گیا ہے


حدید احمد شیر پیشے کے لحاظ سے الیکٹریکل انجینئر ہیں اور فی الوقت سولر فوٹو وولٹیک سسٹم میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں . ان کی ریسرچ یہاں دیکھی جا سکتی ہے .

@hadeedsher

First published on pkpolitics
pkpolitics.com/2015/06/17/quaid-e-azam-solar-power-plant-a-rebuttal-ii/

You Might Also Like

0 comments

Copyright statement

Copyright © 2015-2017 by Hadeed A Sher

All rights reserved. No part of this blog may be reproduced, distributed, or transmitted in any form or by any means, including photocopying, recording, or other electronic or mechanical methods, without my prior written permission. For permission requests, write to the blog author addressed “Attention: Permissions Coordinator,” at the contact form.


Disclaimer

This blog is about my PhD work and an archive to my engineering education. However, additional study material for the courses i teach and that i have studied is also archived here.
All the circuits in this blog are tested by myself under specific conditions. BE CAREFUL if you are experimenting them, the blogger and this blog are not responsible to any harm and or damage to yourself and your equipment.


Contact form

Name

Email *

Message *